سعودیہ عربیہ کے شاہ سلمان نے ایک پریس کانفرنس میں ایران کو اہم مشورہ دیا کہ وہ تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کو جنگ میں جھوکنے کے بجائے ترقیاتی کاموں میں سرمایہ کاری کرے یہ ایک دانشمندانہ مشورہ ہے لیکن یہاں ہما رے جو غور طلب بات ہے وہ یہ کہ کیا مشرق وسطیٰ میں یہ اچانک خوفناک تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ، دراصل یہ استعماری وعالمی طاقتوں کا سوچا سمجھا گہرا منصوبہ ہے جو کئی دہوں سے جاری اور وبہ عمل ہے ۔
سعودی عرب کو عالم اسلام میں ایک قائدانہ حیثیت حاصل ہے ، مسلمانان عالم کو سعودیہ عرب ، حرمین شریفین کی وجہ سے بڑی الفت اور خاص انسیت ہے ، عالم اسلام کے گمبھیر مسائل میں مسلمان سعودیہ عرب سے بڑے امیدیں لگائے رہتے ہیں ، سعودی عرب کی کمزور سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے مشرق وسطی اور دوسرے مممالک میں مسلم عوام بے انتہا مظالم کا شکار ہو رہی ہیں ۔ عراق ، شام ، لیبیا ، یمن کی بربادی میں جہاں عالمی طاقتیں ذمہ دار ہیں وہیں عالم اسلام کے دو بڑے طاقتور تیل سے مالا مال ممالک ایران اور سعودی عرب بڑی حد تک ان مظالم کے برا بر کے شریک ہیں ، امریکہ نے افغانستان وعراق پر جارحانہ حملہ کرکے تباہ وتاراج کردیا بش نے بلاد اسلامیہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔بے قصور معصوم عوام کے جانوں کا ضیاع اورگھر بار کی مسلسل بربادی ہوتی رہی افغانستان میں 5لاکھ اور عراق میں 50لاکھ سے ززیادہ بچے ادویہ اور طبی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے ہلا ک ہو گئے، اس کے علاوہ فاسفورس بمباری کی وجہ سے کئی ملین افراد کو کینسر کا عارضہ لاحق ہوا ، 10سال کے طویل عرصے میں سعودی عرب نے ان مظالم کے خلاف عالمی سطح پر کوئی مساعی نہیں کی بلکہ خون آلود عالمی کھیل کا تماشہ بیں بنا رہا ۔ افغانی ، اعراقی ، شامی ، فلسطینی ، جس بدنصیبی ، بدبختی ، قلق واضطراب ، اعصابی امراض ، نفسیاتی الجھنوں اور انارکی کا شکار ہوئے وہ تاریخ عالم کا ایک سیاہ باب بن چکا ہے ۔
سعودی عرب کو اسلام اور مسلمانوں سے مزاحم ہونے والی عالمی طاقت کی نیت ہدف اور حقا یق کو کابخوبی اندازہ تھا ایک طویل عرصے کے بعد سابق صدر افغانستان حامد کرزئی اور سابق وزیر اعظم برطانیہ ٹونی بلیر کی جا نب سے تکلیف دہ حیران کن حقا ئق کو وا شگا ف کیاگیا ہے مسٹر حامد کرزئی سابق صدر افغانستان نے الجزیرہ ٹیوی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے صاف طور پر کہا کہ القاعدہ نام کی کوئی تنظیم افغانستان کی سرزمین میں کبھی بھی نہیں تھی ۔الجزیرہ ٹی وی اینکر ممہدی حسن نے مکرر سوال کیا کہ کیا آپ اسے لغو قرار دیتے ہیں مسٹر کرزئی نے جواب میں برملا کہا کہ یہ سب فسانہ ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔اسی طرح برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیر نے CNNپر فرید زکریا کو GPSپر و گار م میں جواب دیتے ہوئے کھلے عام عالمی میڈ یا میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اعراق پر حملہ ہماری فاش غلطی تھی ، چند غلط معلومات کیی بنیاد پر اعراق پر حملہ کیا گیا تھا جس کا ہمیں شدید افسوس اور اعتراف ہے ۔
سعودی عرب کو امریکہ نے افغا نستا ن اور عراق کے مقا بلے میں اعتماد میں لے کر غیر جانب دارملک کی حیثیت سے خطے کی سیاست سے بے دخل کردیا ، جبکہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک امریکہ کے کٹر حلیف ہیں ، کئی فوجی ، معاشی ، سیاسی اسٹراٹیجک طویل مدتی معاہدے امریکہ سے کئے ہوئے ہیں سعودی عرب کو بش کے خوفناک منصوبوں کا پوری طرح علم تھا ۔جب عراق پر قبضہ کرکے صدام حسین کو حکومت سے بے دخل کیاگیا ، اسی وقت امریکہ نے ایران کوایک خفیہ معاہدہ کے ذریعہ عراق کی حکومت سونپی اورایران کو مشرق وسطی میں ایک طاقت ور شیعہ پاور کے طور پر ابھارنا شروع کیا عراق میں گذشتہ یک سو تیس سال سے اقتدار سنیوں کے ہاتھوں میں تھا اس کا یکسر خاتممہ کردیا گیا ، لاکھوں تعلیم یافتہ ،تجربہ کار ، حکومتی عہدیداروں پرونیوسرس جرنلسٹوں، انجینئر وں ، ڈاکٹروں کا قتل عام کیاگیا ۔ایران کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ کسی بھی طرح سے اعراق پر اقتدار حاصل کرے ، اس عر صے میں سنیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے ،کاروبار ،صنعتوں ، کھیتوں اور گھروں پر شیعہ ملیشیا نے قبضہ کرلیا ، سنی شہریوں کا انخلاء کرایا گیا ۔اور جو ان علا قو ں میں بھی سنی علاقوں میں برقی اور پانی کی فراہمی بند کردی گئی ہیں ۔
ایران وامریکہ نے اعراق کی تیل کی پیداوار میں جنگ کے ہرجانے کے طور پر بڑا حصہ حاصل کرلیا اور ایک چوتھائی حصہ اعراق کی مقامی حکومت کے لئے چھو ڑ د یا، اعراق میں 35%سے زیادہ سننی عوام رہتے ہیں ، لبنان شام اور سعودی عرب کی سرحدوں سے منسلک پٹی پر سنی آبادی کی اکثریت ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ امریکہ سعودی عرب کا قدیم گہرا دوست ہے اور اعراق کے پڑوسی ملک ہونے کے نا طے کی وجہ سے اعراق کی حکومت سازی کے عممل اور اقتدار میں چھوٹے پیمانے پر ہی سہی ا مر یکہ سعودی عرب کو شامل رکھتا مگر امریکہ نے ایران سو پر مسی کے خاطر سعودی عرب کو اعراقی سیاسی امور سے مکمل طور پر دور رکھا ۔
قیادت کی نا اہلی : ۔ سعودی عرب کو مسلم ممالک میں جو قائدانہ حیثیت حاصل تھی اس کو اپنی نااہلی بے بصیرتی اور عدم فعالیت کی وجہ سیے اپنا مقام اور رتبہ کھونا پڑا۔ عرب ممالک کے بنیادی گمبھیر مسائل ہیں اور خطے میں ان کی سا طیت آزادی ، مساوات ، طاقت کے توازن اور ترقی کے لئے جو عملی تعاون پیش کرنا تھا اس میں برح طرح ناکام ہو گیا ۔ چند اہم وجوہات ایسے ہیں جس کی وجہ سے سعودی عرب کی قدر میں کمی واقع ہوئی ہے ۔
۱۔ اسرائیل فلسطینیوں پر مسلسل مظالم ڈھاتا جارہا ہے ، اسے روکنے کے لئے عالمی برادری میں سیاسی اور سفارتی دباؤ کے ذریعہ سعو دی عرب نے کبھی روکنے کی متحدہ کوشش نہیں کی ۔ اب اسرائیل کے لئے سعودی عرب کوئی مسئلہ نہیں رہا ۔
۲۔ عرب افریقی ممالک میں بھی سعودی عرب کی پالیسی خوش آئند نہیں رہی ۔
عالمی طاقتوں کے دباؤ پر جب سوڈان کی تقسیم کا معاملہ آیاتو اس وقت سعودی عرب کوئی مثبت رول ادانہ کرسکا ، سوڈان کے صدر عمر البشیرکو جنگی جرائم کا افریقین کورٹ نے جنگی جرائم میں ملوث اہم مجرم قرار دے کر گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تو سعودی عرب نے اسے روکوانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی ۔
مصر میں ایک طاقتور اسلامی تحریک "اخوان المسلمین "ملک کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اقتدار میں آئی تو اسرائیل امریکہ اور خلیج کے تمام مطلق العنان حکمراں پریشان ہو گئے ، سعودی عرب نے صدر مصر مرسی کا تختہ الٹنے اور اخوان المسلمین کو پوری طرح کچلنے کے لئے اسرائیلی ایجنٹ جنرل سیسی کی بھر پور مدد کی اور کئی بلین ڈالر کا مالی تعاون کیا ،عرب حکمراں یہ نہیں چاہتے کہ ان کے خطے میں کوئی عوامی جمہوری صاف ستھری حکومت انتخابات کے ذریعہ قائم ہو ۔ سی سی کو سعودی عرب کی پشت پناہی نے عرب عوام کو سعودی عرب سے متنفر کردیا ۔ لیبیا میں خانہ جنگی کو ہوا دی جارہی ہے مختلف جنگو کروپوں کی مدد کی جارہی ہے لیبیا میں انتخابات کے ذریعہ ایک جمہوری ملک کا قیام ناممکن نظر آتا ہے ۔
۳۔ شامی مھاجرین
کا بحران : ۔ شام کے صدر بشار الاسد کو حکومت سے بے دخل کرنے کے لئے سعودی عرب کی کوششیں طویل عرصے سے ناکامی کا شکار ہو رہی ہیں ، ایران بشار الاسد کا حلیف ہے اس نے اپنی طاقت کھلے عام جھونک دی ہے ۔
شام کی خانہ جنگی اور روز کی گولہ باری اور بمباری کی وجہ سے شمال سے لے کر جنوب تک پورا ملک تباہ وتاراج ہو گیا ہے ملک کی نصف آبادی ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئی شام کے مہاجرین کو ترکی ، لبنان اور اردن نے بڑے پیمانے پر پناہ دی ہے لاکھوں شامی مہاجرین جن میں عورتیں شیر خوار بچے بوڑھے نوجوان لڑکے لڑکیاں سب شامل ہیں ، یورپ کوجان لیوا سمندری راستوں سے ہجرت کی ، یورپ میں چند ممالک کو چھوڑکر تمام یورپی ممالک نے ان شامی مہاجرین کا دل کھول کر استقبال کیا ، نسانی تنظیموں دیگر عالمی اداروں ، اسلامی قائدین ، اسکالرس بالخصوص مسلمانان عالم نے شامی پناہ گزینوں کے سلسلہ میں سعودی عرب کے سخت رویہ اور ان کے داخلہ پر پابندی کی سختی سے مذمت کی ہے ۔ ا گر سعودی عرب شا می پناہ گزوں کو مدد دیتا تو صورت حا ل بل کل مختلف ہو تی۔
۴۔ ملک فیصل اور بعد کے شاہان عالمی سطح پر اسلامی فلاحی ، رفاہی اداروں کی بھر پور مددکیا کرتے تھے9/1/2001 کے بعد ، بش اور اسرائیل کے دباؤ میں ایسے تمام اداروں کا مالی تعاون مسدود کردیا گیا ، حتی کہ ملک کے اندر بھی زکوۃ کی جمع وتقسیم پر پابندی عائد کرکے حکومت نے اپنے ہاتھ میں کنٹرول لے لیا ہے ۔ اسی طرح پر امن اسلامی دینی جماعتوں اور تحریکات کی سرپرستی 2002سے ختم کردی گئی ہے ، اسلام کے نمائندے مقامی جماعتیں کمزور پڑ کر تقریبا ختم ہو رہی ہیں ۔ جبکہ ایران کھل کر شیعہ تحریکات عسکری تنظیموں کی بھر پور مدد کر رہا ہے ۔
شام میں ایران اور عالمی طاقتوں کا رول :۔ ایران ابتداء ہی سے شام میں علوی حکومت کا حلیف اور ساجھے دار ہے ، شام میں 95% آبادی سنیوں کی ہے ، ان مظالم کا سلسلہ دب بدن بڑھتا جارہا ہے ، ایران پہلے تو ایرانی انقلاب گارڈ اور شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ کو لے کر بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کے لئے لڑتا رہا ہے ، جب کہ میدان ہاتھ سے نکلتا نظر آیاتو ایران نے امریکہ کی رضامندی سے روسی افواج کو شام میں اتاردیا ، ایران کے پاس روس کو شام پر مسلط کرنے کا کوئی جواز نہیں سوائے اس کے کہ شام پر سے ایران کا تسلط ختم نہ ہوجائے ،روس کو امریکہ نے بغداد میں اپنے بند کوارٹر کے قریب ایک بند کوارٹر بنانے اور امریکی ایر فورس کی ایراسٹریپ کو روس بمبار جٹ ہوائی جہازوں کے استعمال کے لئے سونپ دیا ہے ۔ سعودی عرب کے بار بار احتجاج کے باوجود امریکہ ایرانی ایجنڈہ کے فروغ میں بھرپور مدد کرہا ہے ، ایران چا ر مما لک پر مشتمل ، اعراق اور شام ولبنان کو جوڑ کر ایک عظیم مسلم شیعہ مملکت کی تیاری میں لگا ہوا ہے ۔
اکتوبر 2015کے آخری ہفتہ میں شام کی قیادت وحکومت کے تبدیلی کے لئے بین الاقوامی سطح کا اجلاس منعقد ہوا اس میں امریکہ نے ایران اور روس کو بھی مدعو کیا ، ایران نے شام میں طاقت کے توازن کے لئے روس کو بھی شامل کرلیا ہے ۔ بشار الاسد کو بے دخل کرنے کے بعد ایران وروس امریکہ شام چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ۔ شام کی لیبیا جیسی صورت بن سکتی ہے ، تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شام کو یہ طاقتیں تین حصوں میں تقسیم کردیں گی ، ایران سعودی عرب کو کسی قسم کی حکومت میں ساجھے داری دینے تیار نہیں ہے ۔
شام کا مسئلہ دیرینہ حل طلب تھا ہی ایران نے یمن میں حوثیوں کے ذریعہ سعودی عرب کے لئے ایک نیا محاذ جنگ کھول دیا ہے ، ایران شیعہ عسکریت پسندوں اور ملیشیا کی اسلحہ اور جنگی منصوبہ بندی کے ذریقہ بھر پور مدد کررہا ہے ۔
شام میں سیاسی سطح پر کوئی تبدیلی رونما ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں ، شام کے معاملہ میں اب ایران بھی ایک مضبوط فریق بن کر سامنے آیا ہے سعودی عرب کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ اسرائیل روس ایران سعودی عرب کو غیر اہم فریق کے طور پر نظر انداز کرنا چاہتے ہیں ، شامی سنی عوام کا تحفظ اوران کا مستقبل خطرہ میں نظر آتا ہے ، دیکھنا ہے کہ سعودی عرب کیا اسٹراٹیجی اور سیاسی حکمت عملی اختیار کرتا ہے
سعودی عرب کی میعشت پر اثرات :۔ شام اور یمن کی جنگوں اور تیل کی قیمتوں میں مسلسل گراوٹ کی وجہ سے سعودی عرب کی معیشت مالی مسائل کا شکار ہو رہی ہے ، 30سال کے عرصے میں پہلی مرتبہ سعودی عرب نے ساورن فنڈ میں جمع 700بلین ڈالر میں سے 80بلین ڈالر واپس لئے ہیں ، تیل کی قیمتیں انتہائی کم ہونے کی وجہ سے تیل کی روزانہ کی 10ملین بیرل کی پیدا وار سے حاصل ہونے والی أمدنی بڑی حد تک گھٹ چکی ہے ۔ اب چند ماہ میں ایرانی تیل عالمی ماکٹ میں فروخت ہونا شروع ہوگا تو اندیشہ ہے کہ تیل کی قیمتیں اور گھٹ جائیں گی ۔ حکومت سعودی عرب نے اپنے اخراجات میں بڑی حد تک کمی کی ہے ۔ اور بڑے بڑے انفراٹیکچر کے پروجیکٹ کو فی الحال بند کردیا ہے ۔ اگر یہ معاشی بحران اسی طرح جاری رہا تو مستقبل میں ایک مشرق وسطی کی بڑی طاقت کے طور پر قائم رہنا مشکل ہو جائے گا ۔
سعودی عرب کو بدلتے ہو ئے حالا ت میں عر ب ممالک اور مسلما ن مفادات کے تحفظ کئے لئے ایک مبسو ط طو یل سیا سی حکومت عملی اختیا ر کر نے کی ضر و رت ہے ۔ عا لمی طا قتو ں کے رحم و کر م پر مسلم علا قو ں ریا ستو ن اور عوام کو یو ں ہی چھو ڑ دیا جا ئے تو پھر یہ تبا ہی کا لا متنا ہی سلسلہ چلتا رہے گا ۔ استعما ری طا قتو ں کے ہا تھو ں معصو م بے گنا ہ مسلما ن ظلم کی چکی میں پستے جا ر تے ر ہیں گے۔ اطلا عا ت کے مطا بق سعو دی عر ب اسرا ئیل سے اپنے تعلقا ت مستحکم کر رہا ہے اور آیس میں اہم معا ہدو ں کیلئ کی خفیہ میتنگ ہو چکی ہے۔
اگر وا قعی سعو دی عر ب اسرا ئیل سے ا پنے تحفظ اور بقا کے لئے کو ئی معا ہد ہ کر تا ہے تو یہ سعو دی عر ب کے مستقبل بعید بڑی تبا ہی کا بیش خیمہ ہو گی اور مسلما نا نِ عا لم کے لئے بدبختی ہو گی اور اسکا خمیا زہ بھگتنا پڑے گا۔
سعودی عرب کو چا ہئے کہ ایسی کا میا ب حکمت عملیِ اختیا ر کر ے جسمیں عا لم اسلا م کا تحفظ اورتر قی میں مضمر ہو ۔ سعودی عرب کو دوبارہ اپنا کھو یا ہوا مقام حاصل کرنے کے لئے اپنی پالیسیوں اور عا لمی سطح کی اسٹراٹیجی میں بنیادی تبدیلی لانی ہوگی ۔
سعودی عرب کے لئے ضروری ہے کہ سعودی مفادات کے ساتھ عرب ومسلم ممالک ومسلمانان عالم کے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اولین ترجیح دے اور سیاسی حکمت عملی کے ذریعہ جنگ وجدال سے نکال کر امت کو ترقی کی راہ پر لا ئے ۔
از:
ناظم الدین فاروقی
M: 9246248205
E: nfarooqui1@hotmail.com